Add To collaction

16-Dec-2021 حضرت سلیمان علیہ السلام

حضرت سلیمان علیہ السلام

قسط 5
پانچواں_حصہ 
اس کا طریقہ یوں نکلا کہ فیصلہ کیا گیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں گراں بہا ہدیے اور تحائف بھیجے جائیں۔ اس سے ملکہ کا مقصود یہ بھی تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی آزمائش بھی ہو جائے گی۔ اگر وہ تحائف لے کر راضی ہو گئے تو یہ اس امر کی علامت ہو گی کہ وہ ایک بادشاہ ہیں اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے دنیوی وسائل کام دے سکیں گے اور اگر وہ واقعی نبی ہیں تو ان تحائف کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ ہو گی۔ ان کا ہدیہ قبول نہ کرنا اس امر کی طرف اشارہ ہو گا کہ ہمیں بھی اطاعت کیے بغیر چارہ نہیں۔
ملکہ نے تحائف تیار کرائے۔ ان تحائف کی تفصیلات مختلف مقامات پر مختلف درج کی گئی ہیں۔ اسرائیلی روایات کے مطابق سونے کی اینٹیں، جواہرات اور قیمتی برتن تھے۔ بعض روایات میں ہے کہ ایک سو غلام اور ایک سو کنیزیں بھی ہمراہ تھیں۔ کنیزیں مردانہ اور غلام زنانہ لباس میں ملبوس تھے۔ مطلوب اس سے یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی آزمائش کی جائے۔ اگر وہ پہچان لیتے ہیں تو نبی ہیں ورنہ محض ایک بادشاہ۔ جب یہ تحائف ملکہ بلقیس سبا کے قاصد لے کر آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے تمام مہمانوں کو وضو کر کے تازہ دم ہونے کے لیے کہا۔ لڑکیوں نے برتن سے پانی بہا کر ہاتھ دھوئے جبکہ لڑکوں نے برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا۔ یوں آپ پہچان گئے کہ اول الذکر لڑکیاں اور ثانی الذکر لڑکے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک گروہ نے کہنیوں سے ہاتھ دھونا شروع کیے اور انگلیوں تک آیا، جبکہ دوسرے گروہ نے انگلیوں سے شروع ہو کر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے۔ بہرحال حضرت سلیمان نے دونوں کو الگ الگ پہچان لیا۔ اسرائیلی روایات کے مطابق ملکہ بلقیس سبا نے اپنے خط میں چند آزمائشی سوالات بھی کیے تھے۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ملکہ نے ایک برتن بھی بھیجا جس کے لیے فرمائش تھی کہ اسے ایسے پانی سے بھرا جائے جو زمین کا ہو نہ آسمان کا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی فرمائش یوں پوری کی کہ گھوڑے دوڑائے اور ان کے پسینے کے قطرے اس برتن میں جمع کروا دیے۔
ملکہ سبا نے حضرت سلیمان کے لیے کچھ اور بھی آزمائشیں تیار کی تھیں، اپنے غلاموں سے کہا تھا کہ یہ ایک موتی، جس میں سوراخ نہیں ہے، ان کی خدمت میں پیش کرنا کہ اس میں جنوں اور انسانوں کی مدد کے بغیر دھاگا ڈال دیں۔ دوسرے موتی میں سوراخ ٹیڑھا ہے، اس میں بھی دھاگا ڈالنا ممکن نہیں، انھیں کہنا کہ اس میں دھاگا ڈال کر دکھائیں۔ اگر وہ ان سوالوں کو احمقانہ یا ناممکن سمجھ کر غصے میں آ گیا تو وہ ایک عام بادشاہ ہو گا اور اگر اس کا روّ یہ متحمل اور خوشگوار رہا تو جان لینا کہ وہ معمولی بادشاہ نہیں بلکہ نبی ہے، پھر اس کی بات توجہ سے سننا۔ قاصد حاضر ہوئے۔ آپ نے ڈبیا طلب کی، اس نے کہا کھولنے سے پہلے بتائیے، اس میں کیا ہے۔ حضرت جبرئیل نے مدد کی آپ نے فرمایا :
’’ ایک موتی بغیر سوراخ کے، ایک موتی ٹیڑھے سوراخ والا ‘‘
’’ ان دو نوں میں دھاگاڈال دو۔ ‘‘
آپ نے اپنے درباریوں سے فرمایا، موتی میں سوراخ کون کرے گا، دیمک نے یہ کام اپنے ذمے لیا، اپنے منہ میں ایک بال لیا اور موتی میں ایک سرے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل گیا۔ آپ نے دیمک سے خوش ہو کر فرمایا، تمھاری کوئی حاجت ہو تو بیان کرو۔ اس نے کہا ’’ اے نبی، میرا رزق درختوں میں کر دے۔ ‘‘ آپ نے اس کی فرمائش پوری کی۔ پھر آپ نے ٹیڑھے سوراخ والے موتی کو سامنے رکھا اور کہا کہ اس میں دھاگا کون ڈالے گا، ، سفید کیڑے نے بڑھ کر کہا میں یہ کام کروں گا، ، اس نے دھاگا اپنے منہ میں لیا اور ایک طرف سے جا کر دوسرے سے نکل گیا۔ آپ نے اس کیڑے سے اس کی حاجت پوچھی، اس نے کہا۔ اے اللہ کے نبی، میرا رزق پھلوں میں رکھ دو۔ اس کی فرمائش بھی رہتی دنیا تک کے لیے پوری کر دی گئی۔ ۳۷ ؎
قاصد تو اس سے پہلے ہی آپ سے مرعوب ہو چکے تھے، جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے قاصدوں کے استقبال کے لیے دربار سے نوفر سخ یعنی کوئی تیس میل کی مسافت میں سونے چاندی کی اینٹوں کے فرش بنانے کا حکم دیا۔ راستے میں دونوں طرف عجیب الخلقت جانوروں کو کھڑا کر دیا۔ دربار کو بھی از سرِ نو ترتیب دیا۔ اپنے تخت کے دائیں بائیں چار چار ہزار سونے کی کرسیاں، ایک طرف علما اور دانشوروں کے لیے، دوسری جانب وزرا اور عمال سلطنت کے لیے بچھا دی گئیں، چنانچہ جب قاصد آئے تو انھوں نے سونے کی اینٹوں پر جانوروں کو کھڑا دیکھا۔ آگے آگے طیور کی قطاریں تھی۔ پھر جنات کی صفیں تھیں۔ وہ راستے میں ہی حیرت زدہ ہو گئے تھے۔ دربار پہنچے تو وہاں کی شان و شوکت دیکھ کر دنگ رہ گئے اور جب حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو شاہانہ کروفر کے باوجود آپ علیہ السلام خندہ پیشانی سے پیش آئے۔
قاصدوں نے بیش قیمت تحائف نذر کیے تو آپ نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہے۔ یہ مال ودولت میرے لیے بے معنی ہے۔ تم مجھے یہ بے وقعت اور معمولی تحائف دے رہے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت سے سرفراز کیا ہے، پھر جنوں پرندوں اور ہواؤں کو میرے لیے مسخر کیا ہے۔ میری بادشاہت کی شان و شوکت تم دیکھ ہی رہے ہو۔ اس دنیاوی سازو سامان کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ تم اپنے یہ تحائف واپس لے جاؤ اور ایک خطرناک انجام کا انتظار کرو۔ میں انسانوں ہی کی نہیں بلکہ جنوں اور پرندوں کی فوجیں لے کر حملہ آور ہوں گا، جن کا تم مقابلہ نہ کر پاؤ گے۔ تم اپنے ہدیے پر فخر کرو اور اسے اپنے ہمراہ لے کر لوٹ جاؤ۔
قاصد حیران و مبہوت ہو کر واپس ہوئے۔ حضرت سلیمان کے دربار کے احوال کے علاوہ ان کا اعلانِ جنگ بھی ملکہ کو سنا دیا۔ ملکہ جان گئی تھی کہ وہ بادشاہ کے علاوہ نبی بھی ہیں اور اللہ کے نبی اور رسول سے لڑنا گویا اللہ سے مقابلہ کرنا ہے۔ جس کی جرأت ہم میں نہیں ہے۔
ملکہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضری دینے کا فیصلہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے بارہ ہزار سردار منتخب کیے جن کے تحت ایک ایک لاکھ سپاہی تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے دور سے غبار اٹھتا دیکھا تو جان گئے کہ ملکہ بلقیس سبا اپنے ساتھیوں کے ساتھ آ رہی ہے اور مطیع ہو کر آ رہی ہے۔ اس وقت وہ محل سے تین میل کے فاصلے پر تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچا کہ وہ میرے دربار کی شان و شوکت کے ساتھ ساتھ پیغمبرانہ معجزہ بھی دیکھ لے۔ اس لیے آپ نے اپنی اس مجلس میں کہ جہاں آپ صبح سے دوپہر تک مقدمات کا فیصلہ کیا کرتے تھے اور جہاں جن و انس سبھی شریک ہوا کرتے تھے، فرمایا کہ کیا ملکہ بلقیس سبا کا تخت جس کے بیش قیمت اور نادر ہونے کی بہت شہرت ہے، ملکہ کے میرے دربار میں پہنچنے سے پہلے کوئی یہاں لا سکتا ہے کیونکہ جب وہ یہاں آ جائے گی، ایمان لے آئے گی پھر اس کا مال ہم پر حرام ہو جائے گا۔
بہرحال ایک طاقتور اور سرکش جن جو ایک بڑے پہاڑ جتنی جسامت رکھتا تھا۔ وہ بول پڑا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کا دربار برخاست کرنے سے پہلے اس تخت کو اٹھا کر یہاں لا سکتا ہوں۔ پھر آپ جانتے ہیں کہ میں بہت امانت دار ہوں۔ ا س ہیرے جواہرات سے مزین تخت سے کوئی چیز چراؤں گا نہیں۔
ظاہر ہے کہ جن انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتیں رکھتا ہے۔ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ بیت المقدس سے مآرب (یمن) جائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا فاصلہ دو چار گھنٹوں میں طے کر کے تخت یہاں پہنچائے اور تخت بھی کوئی عام معمولی نہیں۔ نہایت وسیع و عریض اور وزنی جسے اٹھانا فردِ واحد کے بس کی بات نہیں اور پھر تخت بھی وہ جو ملکہ نے سب سے زیادہ حفاظت کے ساتھ سات شاہی محلات کے وسط میں ایک محفوظ محل میں مقفل کر رکھا تھا۔ جہاں خود اس کے لوگوں کی رسائی ممکن نہ تھی۔
مجلس شوریٰ میں موجود ایک شخص بول اٹھا، یہ وہ شخص تھا کہ جسے کتاب کا علم عطا کیا گیا تھا کہ آپ کے پلک جھپکنے سے بیشتر میں تخت، آپ کی خدمت میں حاضر کر سکتا ہوں۔ یہاں چند سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں یہ کون شخص تھا؟ کتاب کون سی تھی؟ علم کیا تھا؟ بعض افراد کا خیال ہے کہ یہ خود حضرت سلیمان علیہ السلام تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ’’ علم سے نوازا تھا‘‘ اور وہ معجزہ دکھا سکتے تھے۔ بعض مقامات پر اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقرب صحابی بتایا گیا ہے۔ اس کا نام آصف بن برخیا درج ہے، جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے معتمد خاص اور وزیر تھے اور نسل انسانی سے تعلق رکھتے تھے۔ ۳۸؎
جاری ہے

طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   7
2 Comments

Anuradha

10-Sep-2022 03:16 PM

بہت بہت خوبصورت لکھا ہے🔥🔥

Reply

fiza Tanvi

14-Jan-2022 04:49 PM

Bahut khoob sir

Reply